"Don’t decorate stations — fix tracks, coaches, and engines first!"
پاکستان ریلوے: اسٹیشنوں کی تزئین و آرائش سے پہلے پٹری، کوچز اور انجنز کی درستگی ضروری
پاکستان ریلوے ملک کے ٹرانسپورٹ سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جو شہروں، قصبوں اور دور دراز علاقوں کو آپس میں جوڑتی ہے اور لاکھوں مسافروں کو سستا سفر فراہم کرتی ہے۔ تاہم، اپنی تاریخی اہمیت اور ممکنہ صلاحیت کے باوجود، پاکستان ریلوے آج بھی کئی سنگین مسائل کا شکار ہے جن کی وجہ سے اس کا نظام غیر مؤثر بنتا جا رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے مختلف ریلوے اسٹیشنز کی تزئین و آرائش پر توجہ دی جا رہی ہے، لیکن اصل ضرورت کہیں اور ہے — یعنی ریلوے پٹریوں کی درستگی، کوچز کی بہتری، اور ٹرینوں میں بجلی اور انجن کی مکمل فراہمی۔
ریلوے پٹریاں: بنیاد کی اصلاح سب سے پہلے
کسی بھی ریلوے نظام کی بنیاد اس کی پٹریاں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر ریلوے لائنیں پرانی، خستہ حال اور غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ یہ کمزور پٹریاں ہی اکثر حادثات، تاخیر اور ٹرینوں کے پٹڑی سے اترنے کی بڑی وجہ بنتی ہیں۔
اسٹیشنوں کی خوبصورتی پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ مین لائنز (ML-1، ML-2، ML-3) کی فوری مرمت اور اپگریڈیشن کو ترجیح دے۔ صرف مضبوط اور جدید پٹریاں ہی محفوظ، آرام دہ اور تیز رفتار سفر کو یقینی بنا سکتی ہیں۔
کوچز کی حالت: سفر آرام دہ تب ہی ہوگا
پاکستان کی زیادہ تر ٹرینوں کے کوچز ناقص حالت میں ہیں۔ پرانی بوگیوں میں نہ آرام دہ نشستیں ہیں، نہ ایئر کنڈیشنر، اور نہ ہی صاف ستھرے واش رومز یا پنکھے۔
مسافر اکثر گندی بوگیوں، خراب نشستوں، اور بند کھڑکیوں کی شکایت کرتے ہیں۔ صرف گرین لائن یا چند چینی کوچز کو بہتر کرنا کافی نہیں، بلکہ ان سہولیات کو تمام اہم ٹرینوں تک وسیع کیا جانا چاہیے۔
ساتھ ہی، موجودہ کوچز کی مرمت اور باقاعدہ صفائی بھی بہت ضروری ہے تاکہ بغیر زیادہ اخراجات کے سفر کا معیار بہتر بنایا جا سکے۔
انجن اور پاور وینز: ٹرینوں کی جان
کوئی بھی ٹرین انجن اور بجلی کے بغیر نہیں چل سکتی۔ بدقسمتی سے پاکستان ریلوے کے پاس کام کرنے والے انجنز کی شدید کمی ہے۔ موجودہ انجن پرانے، ناکارہ اور اکثر راستے میں خراب ہو جاتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ ریلوے نئے اور طاقتور انجنز میں سرمایہ کاری کرے۔ ایسے انجنز جو زیادہ بوجھ اٹھا سکیں، تیز چل سکیں، اور کم ایندھن خرچ کریں۔ اسی طرح پاور وینز کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ کوچز میں لائٹ، پنکھے، اے سی اور دیگر سہولیات بغیر رکاوٹ کے چلتی رہیں۔
اسٹیشنوں کی تزئین و آرائش: ثانوی ترجیح ہونی چاہیے
اگرچہ خوبصورت اسٹیشن ایک بہتر پہلا تاثر دیتے ہیں، لیکن جب ٹرینیں ہی ناقص ہوں تو ان کی تزئین و آرائش بے معنی ہو جاتی ہے۔ صرف اسٹیشنوں پر رنگ و روغن، فوارے، یا آرام دہ لاؤنج بنا کر مسافروں کو متاثر نہیں کیا جا سکتا۔
یہ وسائل اگر پٹریوں، انجنز، اور کوچز کی بہتری پر خرچ کیے جائیں تو عوام کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ اصل ترقی اندرونی نظام کی درستگی سے ہوتی ہے، نہ کہ صرف بیرونی خوبصورتی سے۔
پاکستان ریلوے کو محض ظاہری سجاوٹ نہیں، بلکہ حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ریلوے پٹریوں کی درستگی، کوچز کی اپگریڈیشن، اور انجن و بجلی کی فراہمی جیسے بنیادی اقدامات پر توجہ دیے بغیر اسٹیشنوں کی تزئین و آرائش کا کوئی فائدہ نہیں۔ جب ٹرینوں کا سفر بہتر ہوگا، تبھی اسٹیشنوں کی خوبصورتی کا اصل اثر سامنے آئے گا۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ سفر اہم ہے، نہ کہ صرف روانگی کا مقام۔
Comments
Post a Comment